حمد و ثنا ہو تیری کون و مکان والے
اے رب ہر دو عالم دونوں جہان والے
ان مانگے دینے والے عرش و قرآن والے
کرتے ہیں تیرے در پر سب آن بان والے
بے شک رحیم ہے تو رحمت نشان والے
یوم جزا کا مالک خالق ہمارا تو ہے
سجدے ہیں تجھ کو کرتے، تیری ہی جستجو ہے
امداد تجھ سے چاہیں سب کا سہارا تو ہے
تیری ہی بارگاہ میں ہیں ایک آرزو ہے
رستہ دکھا دے سیدھا او آسمان والے
وہ راستہ دکھا تو پروردگار عالم
جس پر چلا کیسے ہیں پرہیزگار عالم
نعمت تھی جن کو ملتی تجھ سے نگار عالم
اور نام جن کا اب تک ہے یادگار عالم
تیری نظر میں ٹھہرے جو عزا و شان والے
معتوب ہیں جو تیرے اے خالق لیگانہ
گمراہ ہوئے جو مجھ سے اے صاحب زمانہ
ہم عاجزوں کو یا رب ان کی نہ راہ چلاتا
کر رحم اتنا اب تو اسے زور تا توانا
مقبول یہ دعا ہو اسے آسمان والے
محمد اسماعیل میرٹھی
یہ نظم محمد اسماعیل میرٹھی کی ایک مشہور نظم ہے جس میں انہوں نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی ہے۔ شاعر نے اس نظم میں رب کریم کی صفات کا خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے اور ان سے دعا بھی مانگی ہے۔
پہلے بند میں شاعر نے اللہ پاک سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ اے آسمان وزمین کے مالک ہم تیری حمد و ثنا کرتے ہیں۔ یہ ایک عام دعا ہے جو مسلمان ہر وقت کرتے ہیں۔ اس دعا میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کی حمد و ثنا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔
دوسرے بند میں کہا ہے کہ تو قیامت کے دن کا مالک ہے اور سب تیری جستجو میں سجدہ کرتے ہیں۔ یہ ایک اہم عقیدہ ہے جس پر مسلمانوں کا ایمان ہے۔ قیامت کا دن ایک ایسا دن ہے جب ہر انسان کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اس دن اللہ تعالیٰ ہی سب کا فیصلہ کرنے والا ہوگا۔ شاعر نے اس بند میں اللہ تعالیٰ کی عدالت اور اس کی رحمت کا ذکر بھی کیا ہے۔
تیسرے بند میں کہا ہے کہ اے پروردگار عالم ہمیں وہ راستہ دکھا جس کو پر ہیز گاروں نے اپنے لئے چنا ہے۔ یہ ایک اہم دعا ہے جو ہر مسلمان کو کرنی چاہیے۔ پرہیزگار وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی احکامات پر عمل کرتے ہیں اور اس کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔ شاعر نے اس بند میں اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور مغفرت کی دعا بھی مانگی ہے۔
چوتھے بند میں انہوں نے کہا ہے کہ وہ لوگ جو گمراہ ہیں اور وہ جو گناہ پر گناہ کیے جاتے ہیں ہم عاجز و بے کسوں کو ان کی راہ نہ دکھانا۔ اے میرے رب کریم تو ہم پر رحم کی نظر کر ۔ یہ ایک اہم دعا ہے جس میں شاعر نے اللہ تعالیٰ سے گمراہوں اور گناہگاروں سے دور رہنے کی دعا مانگی ہے۔ شاعر نے اس بند میں اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کا بھی ذکر کیا ہے۔
آخری مصرعے میں انہوں نے رب ذو العرش سے دعا کی ہے کہ اے آسمانوں کے مالک ہماری دعا کو قبول فرما۔ یہ ایک عام دعا ہے جو مسلمان ہر دعا کے آخر میں کرتے ہیں۔ اس دعا میں شاعر نے اللہ تعالیٰ سے اپنی دعا قبول کرنے کی التجا کی ہے۔
نظم کی تعریف۔
یہ نظم ایک خوبصورت اور روحانی نظم ہے جس میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس سے دعا کا حق ادا کیا ہے۔ شاعر نے اس نظم میں رب کریم کی صفات کا خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے اور ان سے دعا بھی مانگی ہے۔ یہ نظم ہر مسلمان کے لیے ایک اچھی رہنمائی ہے اور اسے ہر مسلمان کو پڑھنا چاہیے۔
اس نظم کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ شاعر نے اس نظم میں مشکل الفاظ اور فقروں کا استعمال نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے یہ نظم ہر شخص کے لیے قابل فہم ہے۔
اس نظم کا پیغام یہ ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کریں اور اس سے دعا مانگیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم پرہیزگاروں کی راہ پر چلیں اور گمراہوں اور گناہگاروں سے دور رہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے رحمت اور مغفرت کی دعا مانگیں۔
یہ نظم ایک اہم نظم ہے کیونکہ اس میں شاعر نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور اس سے دعا کا حق ادا کیا ہے۔ یہ نظم ہر مسلمان کے لیے ایک اچھی رہنمائی ہے اور اسے ہر مسلمان کو پڑھنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرہنگ
سوالات ۔۔۔۔۔
ا- شاعر خدا سے کیا منگتا ہے؟
شاعر صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی دعا مانگتا ہے
۲- خدا کی نظر میں کون سے لوگ شان و شوکت والے ہیں ؟
خدا کی نظر میں وہ لوگ شان و شوکت والے ہیں جن کو خدا نے اپنی رحمت سے نوازا ہے اور سیدھا راستہ دکھایا
ہے۔
۳- شاعر کس سے دُعا مانگتا ہے ؟
شاعر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتا ہے۔
نظم میں کئی الفاظ اور جملے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں، جیسے:
"پروردگار عالم
"تجھ سے نگار عالم"
"تیری نظر میں
یہ تمام الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف اشارہ کرتے ہیں
۴- نظم کے آخری مصرعے میں شاعر نے کیا دُعا مانگی ؟
نظم کے آخری بند میں شاعر نے یہ دعامانگی ہے کہ ہم کو برے راستے پر نہ چلانا۔اور ہماری شمولیت اُن میں نہ ہوں جن پر آپ کی ناراضگی اور عذاب ہوں۔ لہندا آخری بندکے آخری مصرعے میں شاعر ان ساری دعاؤں کے قبولیت کی آرزو کرتا ہے ۔
خالی جگہیں بھر لیجیے:
۱کرتے ہیں تیرے در پر سب آن بان والے
۲ امداد تجھ سے چاہیں سب کا سہارا تو ہے
اور نام جن کا اب تک ہے یادگار عالم
ہم عاجزوں کو یا رب ان کی نہ راہ چلاتا۔
غور کیجئے
دنیا میں کافی دولت مند لوگ گزرے ہیں لیکن ان میں سے بہت کم ایسے ہیں جنہیں یاد کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس خدا پرست اور خدا شناس لوگوں کو ہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔ جہاں اکثر دولت مند لوگ اپنے لیے جیتے ہیں، وہاں بزرگ اور خدا پرست لوگ اپنی زندگیاں دوسروں کے لیے وقف کرتے ہیں۔ کسی ایسی شخصیت کے بارے میں کچھ باتیں لکھیے جو بہت پہلے مر چکا ہو، لیکن لوگ اُسے آج بھی یاد کرتے ہیں۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنه
تاریخ اسلام میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنه کا نام ایک روشن ستارے کی طرح چمکتا ہے ۔ وہ اسلام کے ابتدائی دور میں ایک عظیم رہنما اور دوسرے خلیفہ راشدین تھے۔ اگرچہ وہ چھٹی صدی عیسوی میں رحلت فرما گئے، لیکن ان کی عدالت پسندی، عقل و دانش اور دور اندیشی کی وجہ سے آج بھی انہیں نہایت احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعانیٰ عنه اسلام قبول کرنے سے پہلے ایک انتہائی ذہین اور مضبوط شخصیت کے مالک تھے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھی اور مشیر بن گئے۔ ان کی ہمت اور جرات نے اسلام کی ابتدائی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
خلیفہ منتخب ہونے کے بعد، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنه نے وسیع ترقیاتی کام کروائے۔ انہوں نے خلافت کی حدود کو مشرق و مغرب میں پھیلا کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ ان کے دور میں فوجی نظام کو بھی منظم کیا گیا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو کئی اہم فتوحات حاصل ہوئیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنه رعایا کی بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ انہوں نے بیت المال کا نظام درست کیا تاکہ غریب اور مسکینوں کی مدد کی جا سکے۔ انہوں نے کھیتی باڑی اور تجارت کو فروغ دینے کے لیے بھی اقدامات کیے، جس سے عوام کی زندگیوں میں خوشحالی آئی۔
عدالت پسندی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنه کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ وہ امیر ہوں یا غریب، سب کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرتے تھے۔ انہوں نے یہ بات یقینی بنائی کہ قانون کی حکمرانی ہو اور کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہ ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنه کی سادگی اور انکساری بھی ضرب المثل ہے۔ وہ شاہی لباس زیب تن کرنے کے بجائے سادہ لباس پہنتے تھے اور عام لوگوں کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے۔ وہ اکثر عوام کی مشکلات جاننے کے لیے رات کو گشت کرتے تھے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنه کی زندگی ہمارے لیے ایک نمونہ ہے کہ ایک اچھے لیڈر میں کیسی خوبیاں ہونی چاہئیں۔ ان کی عدالت پسندی، دور اندیشی، رعایا کی فلاح و بہبود کا خیال اور سادگی آج بھی قابل تقلید ہے۔